Pashto Best Ever Settar ! Very Sweet Sound !!!



Pashto Best Ever Settar ! Very Sweet Sound !!!پشتو لوک موسیقی پورے خیبر پختونخوا میں مقبول ہے، پشتو لوک موسیقی اپنے اندر کئی سو سالوں کی روایات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، پشتو موسیقی میں استعمال ہونے والے بڑے آلات رباب، منگے اور ہارمونیم ہیں، کھوار لوک موسیقی چترال اور شمالی سوات میں مقبول ہے، کھوار موسیقی کے سُر پشتو موسیقی سے مختلف ہیں، چترالی ستار سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آلۂ موسیقی ہے. اور اسی طرح ستار، رباب، تھمبل، منگئے ( گھڑا) اور چاوترے کی صدا اور شپےلئی ( بانسری ) بهی اہمیت رکهتے ہیں، ستار کے ماہر استاد ذین اللہ عمرزئی کا ستار ہو اور ان میں پشتو کے دہن ہو اور رباب کا تذکرہ نہ ہو تو یہ نا انصافی ہوگی، کیونکہ رباب اور ستار کی دلکشن دہن پر پشتو موسیقی کا سرور ہی الگ ہے رُباب بلاشبہ پشتو موسیقی کا ایک اہم اور مشکل ترین فن ہے۔ یہ ایک ایسا آلۂ موسیقی ہے جس کا ذکر پشتو زبان کے مشہور اور مانے ہوئے شعراء اور ادباء نے اپنی اپنی کتابوں میں کثرت سے کیا ہے۔ رباب گٹار سے ملتا جلتا آلۂ موسیقی ہے لیکن دونوں کی آواز اور شکل میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ رباب کا لفظ ’روب آب‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں پانی کا سرود یا نغمگی۔ ان کے مطابق پانی کے بہاؤ سے جو آواز نکلتی ہے وہ رباب سے ملتی جلتی ہے اسی وجہ سے اس ساز کو رباب کا نام دیا گیا۔ بقول رباب عربی زبان کا لفظ ہے جو دوالفاظ ’روح اور باب‘ سے نکلا ہے جس کے معنی روح کا دروازہ ہیں چند مؤرخین کے مطابق جنوبی ایشیا میں رباب کی ابتدا افغانستان سے ہوئی، ’رباب کو سُر میں لانا ایک سائینٹیفک عمل ہے۔ اس میں جو چھوٹے تار ہوتے ہیں جس کو پشتو میں ’بچے‘ کہتے ہیں اس کو بڑے تاروں سے جوڑنا پڑتا ہے۔ اس کا بجانا بھی شاید اس لیے مشکل ہے کیونکہ اس کے پردے بنانے پڑتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر آلاتِ موسیقی مثلاً ہارمونیم وغیرہ میں پردے پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں رباب سیکھنا ایک نہایت ہی مشکل فن ہے۔ اس کی وجہ اس میں تاروں کی بڑی تعداد ہے رباب کے مقابلے میں گٹار اور ستار میں تین یا پانچ تار ہوتے ہیں اس لیے یہ دونوں آلات سیکھنے میں بھی آسان ہے۔ پشتون موسیقی پسند تو کرتے ہیں لیکن موسیقاروں اور فنکاروں سے نفرت کرتے ہیں۔ رباب واحد آلۂ موسیقی ہے جس کا بجانا پشتون معاشرے میں برا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ پہلے پشتونوں کے حجروں اور محفلوں میں رباب اور ستار بڑے شوق سے بجایا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ روایت اب کم ہوتی جارہی ہے لیکن آج بھی اگر اس طرح کی محفلیں منعقد کی جائیں تو لوگ اس کو برا نہیں سمجھیں گے۔ ثقافتی تبدیلی اور پشتونوں کی اپنی ثقافت سے لاعلمی کی وجہ سے روایتی آلاتِ موسیقی کے استعمال میں کمی آ رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ نہیں کیا تو آئندہ چند سالوں میں رباب جیسے پشتو موسیقی کا دل کہلانے والے ان الات کا وجود ہی ختم ہو جائے گا. .. (عدنان مہمند یونیورسٹی آف پشاور)



Share on Google Plus

About Unknown

Our team is dedicated to provide our visitors the best music entertainment and also promote underground and upcoming artists on Theabpoet.com. It’s a platform for all artists to showcase their work and talent. So keep Visiting And Enjoy unlimited music entertainment.
    Blogger Comment
    Facebook Comment